ایک مجلس کی تین طلاق
احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ کی روشنی میں
از:ابوطلحہ قاسمی خیرآبادی

تین طلاق کا جواز اور وقوع، احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔
خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
آج کل ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ پورے ہندوستان بلکہ عالمی پیمانے پر اچھالا جارہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی تین نہیں، اور انتہائی جرأت و بے باکی سے کہا جارہا ہے کہ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بھی مجلس کی تین طلاق کی حمایت میں نہیں وارد ہوئی ہے، اور طلاق ثلاثہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری حاصل نہیں ہے“ اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ”طلاق انسان کا بنایا ہوا قانون ہے اور یہ دعویٰ کرنا کہ طلاق کا قانون وحی پر مبنی ہے کھلی بے ایمانی ہے۔“
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک بیوی کو طلاق دینا انتہائی مبغوض اور مکروہ فعل ہے، طلاق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابغض الحلال کہا ہے(رواہ ابن ماجہ:۲۰۱۸) اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: اگر میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوجائے تو (مطلقاً طلاق کے بجائے) باہمی صلح و مصالحت کاطریقہ اختیار کرو بایں طور کہ شوہر کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص اور عورت کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص صلح مصالحت کی کوشش کریں۔ (سورہ نساء:۳۵)
لیکن اگر صلح مصالحت سے کام نہ چلے اور میاں بیوی میں اتفاق کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو مجبوراً طلاق جیسے مبغوض عمل کی شریعت نے اجازت دی ہے، اب شوہر کتنی طلاق دے، ایک، دو، یا تین۔ نیز تین طلاق دینے کی صورت میں ایک ہی طہر میں تینوں دے یا الگ الگ طہر میں اور اگر ایک طہر میں تین طلاق دے رہا ہے تو ایک مجلس میں دینا چاہئے یا الگ الگ تین مجلس میں۔ ان سب چیزوں کا بیان مندرجہ بالا آیت میں نہیں ہے، بلکہ ان میں سے بعض کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات میں ہے اور بعض چیزوں کا بیان قرآن کریم میں سرے سے ہے ہی نہیں، ان کا ذکر صرف احادیث صحیحہ میں ہے، جس کی تفصیل مالہ و ما علیہ کے ساتھ درج ذیل ہے:
طلاق کی قسمیں
طلاق کی تین قسم ہے:
(۱) طلاق احسن، یعنی شوہر بیوی کو ایک طلاق دے، ایسے طہر میں جو جماع سے خالی ہو اور اسی حالت پر بیوی کو چھوڑ دے تا آں کہ عدت پوری ہوجائے یا رجوع کرنا چاہے تو زمانہٴ عدت میں رجعت کرلے۔
(۲) طلاق کی دوسری قسم طلاق حسن ہے، یعنی مدخول بہا عورت کو تین طلاق الگ الگ طہر میں دے۔
(۳) تیسری قسم کو طلاق بدعی کہتے ہیں۔ اس کی دو صورت ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاق (الگ الگ مجلس میں) دے۔ (ہدایہ: ۱/۲۲۱، مطبوعہ بیروت، ۱۹۹۵/)

Read More on Darul Uloom Deoband Website

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 89 ‏، ربیع الاول ‏، ربیع الثانی1426ہجری مطابق مئی 2005ء

Share:

TOP